Episode.8
رات کا وقت تھا مہمان آ چکے تھے ہوا میں عطر اور گجرے کی خوشبو بسی ہوئی تھی پرانی حویلی کا آنگن روشنیوں سے جگمگا رہا تھا چاروں طرف چمکتے دیے اور فیری لائٹس لٹک رہی تھیں سامنے ایک بڑا سٹیج سجایا گیا تھا جس میں رنگ برنگی گلدستے موتیوں کی مالائیں اور روشن قندیلیں لگی تھیں سٹیج پر صوفیانہ رنگ کا غضب کا اثر تھا ایک طرف ڈھول والے اپنے ڈھول کو سر میں لا رہے تھے دوسری طرف گلو کار اپنی تال سیٹ کر رہے تھے اور پھر قوالی کا آغاز ہو گیا ذریاب مشعل کا ہاتھ تھامے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ لے کر آ رہا تھا مشعل نے ڈارک بلیو غرارہ پہن رکھا تھا زیور بالکل کم لیکن وہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ ذریاب ایک پل کے لیے اس کو دیکھتا ہی رہ گیا پھر دھیرے سے اس کے کان کے پاس جھکا
" آج تم چاند سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی ہو"
" مجھے لگا آج تم چاند سے کچھ مختلف کہو گے "
مشعل مسکرائی
" میں سچ کہہ رہا ہوں یہ جگمگاتی روشنی بھی تمہارے سامنے پھیکی لگ رہی ہے "
وہ ہلکا سا جھکا تھا مشعل تھوڑا بلش ہوئی مگر جلدی سے خود کو سنبھال گئی دونوں بیٹھ کر اب قوالی سننے لگے تھے آتش تھوڑا الگ ہو کر بیٹھا تھا اس نے گرے شیروانی پہنی تھی جب کہ مہر نے گرین اور گولڈ کی ساڑھی پہن رکھی تھی مہر کو محفل بہت پسند آ رہی تھی وہ سروں میں کھو سی گئی تھی لیکن آتش زیادہ کیا تھوڑا سا بھی انجوائے نہیں کر رہا تھا
" تم اتنے سیریس کیوں لگ رہے ہو میوزک انجوائے نہیں کر رہے؟"
اس نے آتش کی طرف دیکھ کر کہا
" ایسی آواز میں چلانے کا کیا فائدہ ہوا"
وہ ٹھنڈے لہجے میں بولا مہر کو شاک لگا
"تم اسے چلانا کہہ رہے ہو؟۔ یہ قوالی ہے آتش! روح تک محسوس ہونے والی "
آتش تھوڑا ناراض ہوا لیکن پھر محفل کا سر اسے دھیرے دھیرے اپنی طرف کھینچنے لگا
آج رنگ ہے ۔۔۔۔۔
اور سب اسی سر میں کھونے لگے مہر بھی آنکھیں بند کر کے اس گانے کو محسوس کرنے لگی اور آتش پہلی بار اسے اس طرح شدت سے محسوس کرنے لگا کیا یہ واقعی اتنی معصوم ہے جتنی دکھتی ہے اس نے دل میں سوچا اس کا دل ایک عجیب سی کشش محسوس کرنے لگا مگر اس نے مہر کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیا جیسے ہی قوالی اپنی جوبن پر اتری محفل اور رنگین ہو گئی ذریاب مشعل کا ہاتھ تھامے اسے ڈانس فلور پر لے گیا
ایک رات بس اپنی مرضی سے
تم چھوڑ دو اپنی شرمیلی ادائیں
ذریاب گنگنایا
" میں شرماتی نہیں ہوں"
مشعل نے کہا
" پھر چلو ۔۔۔"
دونوں ہلکا پھلکا sway کرنے لگے مشعل نے دھیرے سے اس کے کندھے پر سر رکھ دیا مہر جو اکیلی ڈانس کرنے لگی تھی رکی پھر آتش کے پاس آئی
" آج صرف ایک پل، بنا کسی انا کے بنا کسی ٹینشن کے بس جینے کے لیے"
وہ اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے کھڑی تھی آتش نے بس ایک پل کے لیے اس کے بڑھتے ہاتھ کو دیکھا پھر تھام لیا تھا۔
☆☆☆
عینی نے میرون اور گولڈن رنگ کا انارکلی پہن رکھا تھا بالوں میں گجرے اور ہاتھوں میں چوڑیاں جنہوں نے ہر حرکت پر ایک کھنک برپا کر رکھی تھی وہ ایک جگہ الگ تھلگ سی بیٹھی سامنے ڈانس فلور پر کھڑے ان دونوں جوڑوں کو دیکھ رہی تھی سر سنتے ہی اس کے چہرے پر ایک الگ سی چمک آئی تھی قوالی کا ہر لفظ اس کے دل میں اتر رہا تھا امان نے بلیک کرتا پہن رکھا تھا کالر ہلکے سے کھلے ہوئے وہ محفل میں قدم رکھ رہا تھا آنکھوں میں ایک الگ سا سکون تھا اس کی نظریں جیسے کسی کو ڈھونڈنے لگیں عینی نے ایک پل کے لیے اپنے ہاتھ کی چوڑیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے نیچے دیکھا تبھی امان کی نظر اس پر پڑی تھی وہ دھیرے سے چلتا ہوا اس کے سامنے آ کر رکا عینی جو میوزک میں کھوئی ہوئی تھی ایک دم رک گئی امان پر نظر پڑتے ہی وہ تھوڑا حیران ہوئی
"واہ، جناب کو بھی آج قوالی کا شوق جاگ گیا "
عینی نے ہلکا سا طنز کیا تھا
"نہیں، بس ایک آواز سننے آیا تھا ۔"
وہ مسکرایا
" کون سی آواز؟"
وہ حیران ہوئی
" جو محفل میں نہیں سنائی دیتی لیکن دل سن سکتا ہے "
عینی بالکل چپ ہو گئی اس کے پاس اب کوئی جواب نہیں تھا امان کی آنکھیں اسے بہت کچھ کہہ رہی تھیں جنہیں وہ سمجھ تو رہی تھی مگر اسے یقین نہیں آ رہا تھا
آج جانے کی ضد نہ کرو۔۔۔۔۔
ایک قوالی شروع ہوئی تھی سر اتنے پرکشش تھے کہ دونوں ایک پل کے لیے اس میں کھو گئے پھر امان دھیرے سے عینی کے قریب ہوا
" تمہیں نہیں لگتا کہ کچھ باتیں کہنے سے زیادہ محسوس کرنے کے لیے ہوتی ہیں "
عینی نے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ اسے الجھ کر دیکھا تھا
" تم عجیب باتیں کر رہے ہو امان"
" عجیب تو نہیں صرف وہ جو دل میں ہے"
عینی نے اس کی بات سن کر ایک لمحے کے لیے اس کی طرف دیکھا اس کا دل تیز دھڑکنے لگا تھا پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا کوئی چھپا لفظ نہیں کوئی ہلکا سا بھی اظہار نہیں بس ایک گہرا سا خاموش لمحہ امان دھیرے سے مسکرایا اسے معلوم تھا کہ عینی کو یقین نہیں آیا عینی نے آنکھیں جھکا لی پر پھر بھی ایک عجیب سی ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آگئی امان نے اس کی مسکراہٹ دیکھی پھر دھیرے سے کہا
" کچھ باتیں بنا کہے بھی سن لینی چاہیے،
عینی "
قوالی کے سر اونچے ہونے لگے تھے محفل پوری روشنی میں چمک رہی تھی اور اس بھیڑ میں امان اور عینی کے درمیان صرف ایک لمحہ زندہ رہ گیا ایک خاموش اظہار جو لفظوں سے زیادہ گہرا تھا۔
☆☆☆
مشعل اور ذریاب دو دن بعد ہنی مون کے لیے چلے گئے تہمینہ بیگم نے آتش کو بھی کہا جسے سن کر آتش کی نسیں پھٹنے کے قریب ہوئی تھی
" آخر آپ چاہتی کیا ہیں امی ؟ میں کیا کروں بتائیں مجھے اگر آپ یہ چاہتی ہیں کہ میں گھر چھوڑ کر چلا جاؤں تو ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں "
تہمینہ بیگم نے اس کے خطرناک تیور دیکھے پھر وہ خاموش ہو گئی تھیں اس کے بعد انہوں نے کچھ نہیں کہا آہستہ آہستہ دن گزرتے گئے وہ جو دوپہر کو لنچ کے لیے گھر آتا تھا وہ آنا بھی بند ہو گیا کیونکہ وہ جب بھی گھر آتا اسے مہر پورے گھر میں گھومتی ہوئی ملتی اس دن اس نے بمشکل دس منٹ گزارے تھے اور ان دس منٹ میں مجال ہے جو وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی خاموش ہوئی ہو اس دن کے بعد اس نے آنا بند کر دیا تھا علی ہائر ایجوکیشن کے لیے دوسرے ملک جا چکا تھا پھر کچھ دنوں بعد تہمینہ بیگم بھی کچھ وقت کے لیے علی کے پاس چلی گئی ۔
☆☆☆
گھر سنسان تھا۔ دن ڈھل رہا تھا، لیکن اندر کا موسم بدستور ساکت۔ تہمینہ خالہ کے جانے کے بعد وہ کافی چپ چپ رہنے لگی تھی۔ علی بھی نہیں تھا جس کے ساتھ اس کی ہنسی مذاق چلتی رہتی تھی ۔ گھر یکدم سنسان ہو گیا تھا۔ آتش صبح کا گیا رات کو لوٹتا تھا۔ آج اس کا آف تھا وہ لاونچ میں بیٹھا اخبار کی ورک گردانی کر رہا تھا،
مہر دوپہر سے کچن میں مصروف تھی، خود کو مصروف رکھنا اس کے بس میں تھا، اور خاموشی میں چھپ جانا اسے آسان لگتا تھا۔
اس نے دو کپ چائے بنائی، خود بھی حیران تھی کہ دوسرا کپ کیوں۔ شاید عادت، شاید امید۔
چائے لے کر جب وہ لاؤنج میں پہنچی، آتش صوفے پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ جیسے وہ اس کی موجودگی کو محسوس ہی نہ کر رہا ہو۔
"چائے..."
مہر نے ہچکچاتی آواز میں کہا۔
آتش نے اخبار نیچے رکھا، اسے دیکھا... اور پھر بس ہنسا، ایک ایسی ہنسی جو دل چیر دے۔
"کتنی بار کہہ چکا ہوں... یہ سب ڈرامے مجھ پر مت آزماو۔"
"میں نے کچھ غلط نہیں کیا..." وہ دھیرے سے بولی۔
آتش اٹھا، اس کے بالکل قریب آکر جھکا، اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
"غلط؟" وہ زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ "تمہارا وجود ہی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے۔"
مہر پیچھے ہٹی، اس کے ہاتھ میں چائے کا کپ کانپ رہا تھا۔
آتش نے اس کپ کو دیکھا، اور ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے لے کر زمین پر دے مارا۔ چائے کے چھینٹے مہر کے پاؤں پر گرے،
"یہ، ایک معمولی سی جھلک ہے اُس اذیت کی جو تمہیں جھیلنی ہے۔"
اس کے لہجے میں نہ چیخ تھی، نہ شور — بس ایک ٹھنڈا زہر تھا۔
وہ چلا گیا، ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
مہر زمین پر بیٹھ گئی، ہاتھوں میں کپ کے ٹکڑے چبھنے لگے تھے، لیکن وہ آنکھوں سے آنسو نہیں نکال رہی تھی... بس سانس اندر روکے بیٹھی تھی، جیسے چیخنا چاہتی ہو لیکن زبان بند ہو۔
پورا دن وہ کمرے میں بند رہی۔ نہ کسی نے پکارا، نہ کسی نے تلاش کیا۔
لیکن اگلی صبح جب سورج نکلا، تو وہ بھی نکلی... جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس نے خود کو سنبھال لیا تھا، جیسے دل پر ایک خالی سناٹا لپیٹ لیا ہو۔
آتش کا رویہ، اس کی خاموش سزا، اب نظرانداز کرنے کے قابل لگنے لگی تھی۔
☆☆☆
وہ ایک ٹھنڈی دوپہر تھی آتش زایان اپنے روم کی طرف بڑھا اس کے قدم تیز تھے جیسے کسی فکر میں ہو اسے اپنی ایک ضروری بزنس فائل چاہیے تھی جو صبح اس نے یہی رکھی تھی ہر جگہ دیکھنے کے بعد بھی جب فائل کہیں نہیں ملی تو اس کے چہرے پر پریشانی صاف نظر آنے لگی گہری بھوری آنکھوں میں ایک عجیب سی بے چینی ابھری زبان سے تو وہ کچھ نہ بولا بس اپنی بھڑاس دبا کر سیدھا کچن کی طرف بڑھا مہر اپنے کام میں مصروف تھی اس کا سارا دھیان اپنی ککنگ کی طرف تھا اس کے معصوم چہرے پر ہمیشہ کی طرح ایک چھپی سی شرارت تھی لیکن اس وقت آتش اس چہرے کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا اس کا دماغ صرف اپنی فائل پر تھا جیسے ہی اس کی نظر کچن کی ٹیبل کے پاس پڑی وہ ایک دم رک گیا اس کے ماتھے کی شکن اور گہری ہوئی سامنے جو دکھ رہا تھا اس پر یقین نہیں آیا مہر نے جب آتش کو دیکھا تو اس کا چلتا ہاتھ رک گیا
" کیا ہوا آتش؟"
لیکن آتش نے کوئی جواب نہیں دیا اس کی آنکھوں میں صرف ایک چیز تھی وہ فائل جو گیلی ہو کے پوری طرح تباہ ہو چکی تھی دھوپ کے نیچے رکھی تھی، شاید سکھانے کے لیے لیکن اس کے اندر کے ڈاکومنٹس بکھر چکے تھے اس نے دھیرے سے وہ فائل اٹھائی جیسے کسی مر چکی چیز کو اٹھایا ہو انگلیوں کے بیچ سے بیکار ہو چکے کاغذ سرک گئے اس کے اندر ایک خاموشی تھی جو طوفان سے پہلے کی ہوتی ہے پھر اس نے سر اٹھا کر مہر کی طرف دیکھا آنکھوں میں ایک ایسی تیز ناراضگی تھی جو اس نے کبھی محسوس نہیں کی تھی مہر کا چہرہ ایک دم پیلا پڑ گیا
" وہ۔۔۔۔ وہ غلطی سے پانی گر گیا تھا"
اس کی آواز میں ہچکچاہٹ تھی آتش ایک قدم آگے بڑھا مہر نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی لیکن آتش تب تک اس کے بالکل قریب آ چکا تھا
" مجھے ابھی اس وقت کوئی مذاق سننے کا شوق نہیں ہے مہر"
اس کے غصے سے بھری آواز دھیمی تھی لیکن ہر لفظ آگ برسا رہا تھا اس نے فائل کو ایک جھٹکے سے سائیڈ پر پھینکا کاغذ ہوا میں بکھر گئے مہر نے زور سے آنکھیں بند کر لیں جیسے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہو لیکن آتش رکنے والا نہیں تھا اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ اٹھایا اور مہر کے بالکل پاس آیا اس کے بالکل سامنے اتنا قریب کہ صرف ایک قدم کا فاصلہ بچا تھا
" آتش میں نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا!"
مہر نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کی آواز پھر بھی کانپ گئی تھی آتش کے چہرے پر ایک قاتلانہ خاموشی تھی پھر اچانک اس نے بنا کچھ کہے اپنا ہاتھ اٹھا کر شیلف پر رکھا گلاس اٹھایا اور بنا کچھ سوچے سمجھے اس گلاس کو پوری قوت سے دیوار پر دے مارا
"چپ ۔۔۔، بالکل چپ"
گلاس کے چکنا چور ہونے کی آواز پورے کچن میں گونج گئی تھی شیشے کے چھوٹے ٹکڑے زمین پر بکھر گئے مہر کا سانس رک گیا اس کی آنکھوں میں پہلی دفعہ ڈر دکھا آتش نے ایک گہری سانس لے کر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی لیکن مہر کی آنکھوں میں جو ڈر تھا اس نے اسے اور غصہ دلا دیا تھا
" اگر تم سے ایک سمپل سی فائل بھی ہینڈل نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔"
آتش نے خطرناک مگر دھیمی آواز میں کہا تھا
"تو تم کس لیے ہو یہاں پر صرف ہر بات بگاڑنے کے لیے ؟"
مہر نے آنکھیں نیچے کر لی اس کے گلے میں ایک گرہ سی بن گئی آتش کا یہ رخ اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا
" میں صرف صاف کر رہی تھی"
اس نے دھیرے سے کہا لیکن آتش نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اب دونوں کے بیچ ایک ہلکا سا فاصلہ رہ گیا مہر نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن پیچھے دیوار تھی آتش نے ایک ہاتھ زور سے پیچھے دیوار پر مارا جہاں مہر کا سر تھا مہر نے ایک جھٹکے سے آنکھیں بند کر لی
" تم میری زندگی عذاب کیوں بنا رہی ہو مہر؟"
آتش اس کے بالکل قریب جا کر بولا مہر کا سانس اٹک گیا اس کے ہاتھ کانپے لیکن اس نے کچھ نہیں کہا اس سے کچھ بولا بھی نہیں جا رہا تھا آتش نے ایک پل کے لیے اس کے چہرے کو دیکھا صرف ایک پل کے لیے اس کے دل نے کچھ اور محسوس کیا لیکن پھر اس نے اپنی انا کو واپس جگا دیا
" تم صرف مصیبت ہو مہر، صرف ایک مصیبت ہو "
اس نے ایک آخری بار کہا پھر بنا پیچھے دیکھے وہاں سے نکل گیا مہر وہیں رہی اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولی اس کا دل سو کی سپیڈ سے دھڑک رہا تھا اس کی نظر زمین پر گرے گلاس کے ٹکڑوں پر پڑی ایک گہری سانس لے پھر بالکل چپ چاپ ان ٹکڑوں کو صاف کرنے لگی اس نے اپنی انگلی سے ایک ٹکڑا اٹھایا اور تبھی ایک گہری چوٹ اس کو لگ گئی خون کا قطرہ نیچے ٹپک گیا مہر نے اپنا ہاتھ دیکھا جس میں زخم ہو گیا تھا کافی گہرا زخم اس کے لبوں سے ایک ہلکا سا درد کا احساس نکلا لیکن اس نے کچھ نہیں کہا صرف اپنی چوٹ کو دبا کر صفائی کرتی رہی۔
Continue.....
"Kabhi zindagi bhar ka dard sirf ek lamhe mein utar jaata hai,
Na koi cheekh, na koi shikayat—bas ek khamoshi hoti hai, jo andar tak chhil jaati hai.
Us lamhe mein na waqt rukta hai, na saans chalti hai,
Sirf ek aankhon ka jhilmilana hota hai, jahan bharosa tootta hai...
Aur us bharose ke tukdon par sirf khud se sawal bachte hain.
Meher ne kuch kaha nahi, par uski aankhon mein har lafz tha
Jo Atish ne kabhi suna hi nahi...
Aur Atish—wo to bas khamoshi se apni anaa ka patthar utha kar
Meher ke dil par rakh gaya.
Na jaane jaan bujh kar ya be-iraada,
Par wo ek lamha tha… jisne dono ke beech ek gehra zakhm chhod diya.
Kya zaroori hota hai har baat kehna?
Kabhi kabhi to kuch na kehna sab kuch keh jaata hai.
Aur wahi sab kuch… Meher ke chehre pe tha
Jise Atish ne dekha bhi, par samjha nahi…
Ya shayad samajh kar bhi andekha kar diya.
Aksar zindagi ke sabse gehre zakhm wahi dete hain
Jin par sabse zyada bharosa hota hai.