Cherreads

Chapter 7 - شب_ وصال، شب _فراق

Episode.7

ذریاب نے مشعل کا ہاتھ نرمی سے تھاما اور آہستہ آہستہ پھولوں سے سجی راہداری میں چلنے لگا۔ ہر قدم کے ساتھ مشعل کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔ روم کے دروازے پر رُک کر دونوں نے ایک پل کو ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا۔ پھر ذریاب نے دھیرے سے اپنی انگلی کی پور سے مشعل کے گال کو چھوا اور ایک گہری سانس لی، جیسے اس لمحے کو ہمیشہ کے لیے اپنے دل میں قید کرنا چاہتا ہو۔

مشعل نے آہستگی سے نظریں اٹھائیں، لیکن ذریاب کی گہری نظریں ملتے ہی اس کا دل اور تیز دھڑکنے لگا۔ اس کے گالوں پر ہلکی سی سرخی ابھر آئی، جسے وہ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ ذریاب نے اس کی کیفیت کو محسوس کر لیا۔

"کیا دیکھ رہے ہو؟"

آخرکار مشعل کا صبر جواب دے گیا، مرمری سی آواز نکلی۔

ذریاب نے اس کا ہاتھ تھوڑا اور مضبوطی سے تھام لیا، جیسے بے لفظ کہہ رہا ہو، "تمہیں۔"

پھر وہ ایک قدم اور بڑھا، اور کمرے کے اندر لے آیا۔

"تم میرا وہ چاند ہو جسے پانے کی خواہش سب رکھتے ہیں، مگر نصیب صرف کسی کسی کا بنتا ہے۔"

وہ اسے لے کر کھڑکی کے سامنے آیا، جہاں چاندنی اس کے چہرے پر برس رہی تھی، جیسے رات بھی صرف اسی کی خوبصورتی کو محسوس کرنے رکی ہو۔ مشعل کا دل ایک مدہوشی میں ڈوبنے لگا۔

"وہ چاند دیکھ رہی ہو؟"

ذریاب نے نرمی سے اس کے کندھوں کو تھاما اور اس کا رخ کھڑکی کی طرف موڑ دیا۔

"ہاں،" مشعل نے دھیرے سے کہا۔

ذریاب نے اس کے گرد اپنی باہیں پھیلا دیں، اسے قریب کر لیا۔

"پہلے جب اسے دیکھتا تھا، آسمان پر رشک آتا تھا۔ لیکن آج، چاند کی روشنی کے سامنے مجھے لگ رہا ہے جیسے سب کچھ میرے پاس ہے۔ اب مجھے چاند پر نہیں، خود پر رشک آ رہا ہے… کیونکہ میرا چاند میرے سامنے، میری بانہوں میں ہے۔"

مشعل نے چہرہ موڑ کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ آنکھیں جنہیں اتنا قریب سے دیکھنے کے لیے اس نے نجانے کتنی دعائیں کی تھیں… اور آج وہ سب دعائیں قبول ہو چکی تھیں۔

"کیا ہوا؟ ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟"

زریاب نے چھیڑا۔

"بیوی ہوں تمہاری، کیا نہیں دیکھ سکتی؟"

مشعل کی زبان پھسلی۔

زریاب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، شاید اسے اندازہ نہیں تھا وہ ایسا کچھ کہہ دے گی۔

"اور میں تمہارا شوہر ہوں، دیکھنے کے علاوہ بھی بہت کچھ کر سکتا ہوں۔"

مشعل کے گال مزید سرخ ہو گئے۔

"جب تم اس طرح شرماتی ہو نا، دل کرتا ہے تمہیں کبھی خود سے دور نہ جانے دوں۔"

"زریاب… اب بس بھی کرو!"

اس نے شرماتے ہوئے اسے ہلکا سا دھکا دیا۔

"ابھی تو کچھ کیا بھی نہیں، اور تم کہہ رہی ہو بس کرو؟"

زریاب نے شرارتی انداز میں کہا۔

"میں جا رہی ہوں!"

مشعل نے رخ موڑ کر جانے کی کوشش کی، لیکن زریاب نے فوراً اس کی کلائی تھام کر اسے کھینچ لیا۔

"کہاں جا رہی ہو؟ ایک تو مشکل سے ملی ہو، اب جانے کی باتیں تو نہ کرو یار!"

اس کا لہجہ مدہوش تھا۔

"ہاں تو تم اتنی دیر سے رومانس بھگار رہے ہو، میں تو پک ہی گئی ہوں!"

مشعل شرماتے ہوئے قریب ہوئی۔

"کہو تو رومانس بھگارنے کے بجائے… کر کے دکھا دوں؟"

اس نے دونوں ہاتھ مشعل کے گرد باندھ دیے، لہجہ شرارتی تھا۔

"زریاب!"

وہ روہانسی ہوئی۔

"ارے سوری… مذاق کر رہا تھا!"

زریاب فوراً سنجیدہ ہوا، لیکن اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ چھپی نہ رہ سکی۔

"بہت برے ہو تم!"

مشعل نے ناراضی سے کہا اور اس کے سینے پر سر رکھ دیا۔

"اگر برا ہوتا تو تم مجھ سے شادی کیوں کرتیں؟"

اس نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔

"تب بھی کر لیتی۔"

مشعل نے دھیرے سے کہا، اور زریاب نے اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگا لیا۔

مشعل نے سر جھکا لیا، اور ان کے بیچ کی خاموشی سب کچھ کہہ گئی۔

☆☆☆

"ماشاءاللہ! میری بچی تو بہت پیاری لگ رہی ہے، اللہ نظرِ بد سے بچائے۔ چلو تمہیں تمہارے کمرے تک چھوڑ آتی ہوں۔"

تہمینہ بیگم نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اُس کی نظر اتاری۔

"امی، آپ تھک گئی ہوں گی۔ آرام کریں، میں ہوں نا، میں لے جاتا ہوں۔"

اچانک اندر آتے ہی آتش نے سنجیدگی سے کہا۔

"اچھا چلو، ٹھیک ہے۔ جاؤ بیٹا۔"

انہوں نے مہر کے سر پر محبت سے ہاتھ رکھا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

جیسے ہی وہ نظروں سے اوجھل ہوئیں، آتش نے بےچین شیر کی طرح مہر کا بازو جکڑ لیا۔

"آتش! کیا کر رہے ہو؟ چھوڑو مجھے!"

وہ تڑپ اٹھی، درد سے بلبلاتی بولی۔

"خبردار جو دوبارہ میرا نام لیا!"

وہ پھنکارا اور اُسے کھینچتے ہوئے کمرے کی طرف لے گیا۔

کمرے میں پہنچتے ہی اُس نے مہر کو زور سے صوفے کی طرف دھکیلا۔

"میں نے کہا تھا مت کرنا مجھ سے شادی۔ لیکن تم نے میری بات کو سنجیدگی سے لینا تو دور، سُننا بھی گوارا نہ کیا! کیا سوچا تھا تم نے؟ شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا؟ میں تمہیں اپنا لوں گا؟ خوش فہمیاں تھیں تمہاری— بہت بڑی خوش فہمیاں، مہر ماہ آتش!"

وہ رکا، آنکھوں میں آگ تھی، چہرہ غضب سے لال۔ صوفے کے کنارے دونوں ہاتھ رکھ کر وہ اُس پر جھک گیا۔

"ایسا کبھی نہیں ہوگا!"

مہر جیسے برف کا مجسمہ بنی بیٹھی تھی۔ آتش نے غصے سے گھونگھٹ کھینچ کر الٹ دیا۔ وہ لرزتے لبوں اور بھیگی پلکوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔

اچانک اُس کی آواز بدلی۔

"ارے! تم تو رو رہی ہو؟ پلیز یار، رو تو نہیں۔ تمہارے آنسوؤں سے مجھے کتنی تکلیف ہو رہی ہے!"

وہ شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

مہر نے حیرت سے اُسے دیکھا، اُس کے چہرے پر بلا کی بےنیازی اور شوخی تھی۔

"اور تمہیں لگا کہ میں یہ سب سچ میں کہہ رہا تھا؟ کتنی معصوم ہو تم، کتنی بڑی بےوقوف!"

وہ نفی میں سر ہلاتے سیدھا ہوا۔ لیکن مہر کی آنکھیں اب واقعی بھر چکی تھیں۔

آتش نے اُس کی کلائی دبوچ لی، کانچ کی چوڑیاں چٹخ گئیں اور فرش پر بکھر گئیں۔ خون رسنے لگا۔

"رو! دھاڑیں مار کے رو! تاکہ تمہیں اندازہ ہو کہ آتش سے ٹکر لینے کا انجام کیا ہوتا ہے!"

مہر نے پوری طاقت سے کلائی چھڑائی، چہرہ صاف کرتے وہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی ہو گئی۔

"نفرت کرتے ہو نا مجھ سے؟ نہیں برداشت کر سکتے؟ تو پھر ابھی اور اسی وقت طلاق دے دو! میں ویسے بھی تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ دو طلاق مجھے! ابھی! اور میں یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلی جاؤں گی!"

وہ دونوں بازو سینے پر باندھے تن کر کھڑی ہو گئی۔ آتش کی آنکھوں میں دہکتے شعلے تھے۔

"تم نے نکاح کو مذاق سمجھ رکھا ہے؟ اگر طلاق چاہیے تھی تو شادی کیوں کی؟"

"مجھے کوئی شوق نہیں تھا تم سے شادی کا۔ کسی نے مجھ سے پوچھا تک نہیں کہ میں شادی کرنا چاہتی بھی ہوں یا نہیں۔ صرف یہ کہا گیا کہ تم اچھے ہو، مجھے خوش رکھو گے۔ میں چپ ہو گئی۔ امی ابو اتنے خوش تھے کہ میری ہمت ہی نہیں ہوئی انکار کرنے کی۔ سوچا شاید یہی بہتر ہو۔ لیکن اب۔۔۔"

وہ جو ضبط توڑ کر بول رہی تھی، ایک لمحے کو رکی۔ اُس کی آنکھیں نم تھیں، آواز کانپ رہی تھی۔

"اب مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر لی ہے۔ جا رہی ہوں میں یہاں سے۔"

وہ دروازے کی طرف بڑھی، مگر آتش نے دوبارہ اُسے بازو سے تھام لیا۔

"کہا نا، کہیں نہیں جا رہی ہو تم! بکواس بند کرو اپنی!"

زور سے پکڑنے کی وجہ سے مہر کا بازو سوجھنے لگا۔

"ہاتھ مت لگاؤ مجھے!"

وہ چیخی، اُس کا چہرہ غصے اور درد سے تمتما رہا تھا۔

آتش اُسے دیکھتا رہا۔ پہلی بار، اُس کی آنکھوں میں وہ درد دیکھا تھا، جو اُس کے غصے کو ایک پل کو روکے دے رہا تھا۔

اچانک اُس نے اُس کا بازو چھوڑ دیا۔

"جاؤ! جا کر چینج کرو۔ اس وقت کوئی تماشہ نہیں چاہیے مجھے!"

"نہیں کرنا چینج!"

مہر کی آواز مضبوط تھی۔

آتش نے آنکھیں تنگ کیں۔

"تمہیں پیار کی زبان سمجھ نہیں آتی، نا؟"

اُس نے مہر کو ڈریسنگ روم میں دھکیل کر دروازہ بند کر دیا۔ اندر، مہر زخمی کلائی تھامے سسک رہی تھی، جبکہ باہر آتش فرش پر بکھرے کانچ کے ٹکڑوں کو گھور رہا تھا۔

اُسے وہ مہندی کی رات یاد آئی، جب مہر اُس سے ٹکرا کر گری تھی۔ اُس نے سر جھٹکا، شرٹ اتار کر صوفے پر پھینکی اور بیڈ پر جا لیٹا۔

آدھے گھنٹے بعد مہر باہر نکلی، سادہ لباس میں، چہرہ دھلا ہوا۔

آتش نے سرسری نظر اُس پر ڈالی۔

"مشعل نے صوفہ اسی لیے اٹھوایا تھا کہ تم اُس پر سو نہ سکو۔ بیٹھ سکتی ہو، لیکن سو نہیں سکتی۔"

اُس نے طنز کیا۔

**"شرافت سے آ کر یہاں سو جاؤ۔ مجھے بھی سونا ہے۔ اور ہاں، ذرا سی بھی آواز آئی تو۔۔۔"

مہر دھمکی کا مطلب بخوبی سمجھ گئی تھی۔

دل ہی دل میں وہ سلگ رہی تھی۔

"ابھی تو کہہ رہا تھا کہ برداشت نہیں کر سکتا، اور اب اپنے بیڈ پر سونے کا کہہ رہا ہے؟"

وہ جل کر بیڈ پر دوسری طرف آ کر لیٹ گئی۔ زخمی کلائی کو تھامے، آنکھیں بند کیے، خاموش آنسو تکیے میں جذب ہو رہے تھے۔

وہ کیوں نہیں بتا سکی کہ وہ اُسے چاہتی ہے؟ کہ وہ اُسے کھونا نہیں چاہتی تھی؟ مگر پانا اُس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ تھا۔

ادھر آتش اُس کے بالوں کو دیکھتے سوچ رہا تھا کہ مہر نے طلاق کی بات کیوں کی؟ اُس نے سوچا تھا کہ وہ اُسے اتنا درد دے گا کہ وہ پچھتائے گی، لیکن اُس کی طرف سے یوں چھوڑ جانے کی بات—یہ اُس نے نہیں سوچا تھا۔

"فکر مت کرو مہر، تمہاری یہ خواہش بھی پوری کروں گا۔ لیکن ابھی نہیں۔ پہلے تمہیں پچھتانا ہوگا۔ ہر لمحہ، ہر گھڑی۔"

وہ بے ساختہ اُس کے بالوں کو انگلیوں میں الجھانے لگا، پھر چونک کر ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور کروٹ بدل لی۔

☆☆☆

اگلے ہی دن آتش آفس چلا گیا۔

تہمینہ بیگم نے روکا بھی، "دو تین دن کا آف لے لو، ابھی تو شادی ہوئی ہے!"

مگر وہ ایک نہ سنی۔ شادی کے لیے ہامی بھر کر وہ پہلے ہی بہت بڑا احسان کر چکا تھا، مزید احسانات کرنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہ تھا۔

آفس کے لیے تیار ہوتے ہوئے اُس کی نظریں بار بار سوئی ہوئی مہر پر بھٹک جاتیں۔

اُسے جگانے کا ارادہ کئی بار دل میں آیا، مگر وہ ایسا نہ کر سکا۔

وہ اتنی گہری نیند میں تھی کہ آتش حیران رہ گیا۔

"اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی مزے سے سو رہی ہے؟ میری بلا سے سوئے یا مرے!"

سر جھٹک کر وہ چلا گیا۔

پورا دن آفس میں مصروف رہا، مگر دماغ بار بار بھٹکتا رہا۔

موبائل بار بار بجتا رہا، تنگ آ کر اس نے فون بند کر دیا۔

کام پر فوکس رکھنا اب ممکن نہیں رہا تھا۔

"سر، اس فائل پر آپ کے سگنیچرز چاہیے۔"

سامنے کھڑے ایمپلائی نے کہا تو آتش نے سر اٹھایا —

"تنگ مت کرو مجھے، نکل جاؤ یہاں سے!"

وہ جھڑک کر بولا، اور ایمپلائی چپ چاپ پلٹ گیا۔

جانتا تھا، سر کا آج پھر موڈ آف ہے۔

مگر آتش کا دماغ اب آفس میں نہیں تھا۔

"اب کیا کر رہی ہوگی؟"

یہ خیال بار بار ذہن میں آتا، پھر غصہ چڑھتا —

"مجھے اس سے کیا فرق پڑتا ہے!"

رات نو بجے کے قریب وہ گھر سے نکلا، سب لوگ ہال جا چکے تھے۔

وہاں پہنچا تو امان نے فوراً روک لیا۔

"یہ کیا کر رہے ہو تم آتش؟"

آتش نے الجھ کر اُسے دیکھا، امان کے لہجے میں پہلی بار کوئی سختی تھی۔

"میں کیا کر رہا ہوں؟ تم ہی بتا دو مجھے۔"

"تمہارا موبائل آف تھا؟"

"آفس میں مصروف تھا، دھیان نہیں دے سکا۔"

وہ لاپرواہی سے بولا۔

"تم اچھا نہیں کر رہے... نہ مہر کے ساتھ، نہ اپنے ساتھ!"

امان نے رسان سے کہا۔

"مجھے تمہاری فکر کی ضرورت نہیں ہے۔"

"اور مجھے تمہاری فکر نہیں ستا رہی، بس یاد دلا رہا ہوں، جو کر رہے ہو، کل اس پر پچھتانا نہ پڑے۔ میں تمہارا دوست ہوں، اس لیے کہہ رہا ہوں، ورنہ خاموش رہنا بھی آتا ہے۔"

وہ کندھا تھپک کر پلٹ گیا۔

آتش نے ضبط سے اسے جاتے دیکھا اور اسٹیج کی طرف بڑھ گیا۔

جہاں وہ مشعل کے ساتھ بیٹھی تھی — سرگوشیاں، مسکراہٹیں، قہقہے۔

اس کا چہرہ جیسے کسی کھلے پھول جیسا تھا،

مشعل اس کی باتوں پر شرما رہی تھی اور وہ —

وہ تو ایسے ہنس رہی تھی جیسے لاٹری نکل آئی ہو۔

آتش کی کنپٹیاں سلگنے لگیں۔

"یہ خود تو ایڈجسٹ ہو گئی، اور میری زندگی جہنم بنا دی!"

ارد گرد کی روشنی، ہنسی، شور…

سب کچھ بے معنی لگ رہا تھا، وہ چاہتا تھا سب کچھ "میوٹ" ہو جائے۔

زریاب، مشعل کا ہاتھ تھامے، اسٹیج سے نیچے لایا —

دونوں مہمانوں سے ملتے، سیلفیز لیتے۔

آتش خاموش قدموں سے مہر کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔

"مجھے لگا تھا شادی کے بعد تم تھوڑی تمیز سیکھ جاؤ گی۔"

اس نے آہستہ مگر طنزیہ لہجے میں کہا۔

"مجھے بھی لگا تھا کہ آپ مسکرانا سیکھ جائیں گے۔"

وہ بے ساختہ بولی، اور پھر رخ موڑ کر کسی سے بات کرنے لگی۔

آتش نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ لیں، پانی کا گلاس اٹھایا اور ایک ہی سانس میں پی گیا۔

"بہت زبان چلنے لگی ہے اس کی، لگتا ہے پچھلی سب باتیں بھول چکی ہے۔"

"ویسے مجھے لگا تھا، آج رات آپ آفس میں ہی گزار دیں گے... لیکن ریلیکس، مسٹر سیریس، آپ یہاں صرف اس لیے آئے ہیں کیونکہ اب آپ بھاگ نہیں سکتے۔"

آتش کچھ بولنے ہی والا تھا کہ مہر نے پھر بات کاٹی —

"اب گھر جا کر کہیں گے کہ میں تمہاری زندگی عذاب بنا دوں گی، تم اپنے فیصلے پر پچھتاؤ گی، بلا بلا بلا... ارے بھائی پہلے بھی سُن چکی ہوں، اب اور کتنی بار سُنوں گی؟"

آتش کا صبر اب جواب دے چکا تھا —

اس نے زور سے پانی کا گلاس میز پر پٹخا —

"تم ذرا گھر چلو… پھر بتاتا ہوں تمہیں!"

وہ سرسراتی آواز میں بولا۔

اور مہر کی سٹی گم ہو گئی۔

اب وہ دل ہی دل میں دعا کرنے لگی،

"کاش یہ ولیمہ کبھی ختم نہ ہو!"

☆☆☆

شرٹ کے بٹن کھولتا وہ تیز قدم اٹھاتا کمرے میں چلا گیا مہر اس کے برعکس دھیرے دھیرے قدم اٹھا رہی تھی اس کے چہرے پر ہلکی سی گھبراہٹ تھی لیکن اس کی عادت نہیں تھی کسی سے ڈرنے کی آتش کی بات الگ تھی لیکن اب وہ آتش کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتی تھی 

" تم ہمیشہ سے اتنی بے حس ہو یا مجھے پریشان کرنے کا شوق ہے تمہیں ؟"

کمرے میں قدم رکھتے ہی آتش نے تیز لہجے میں کہا 

" میں نے کیا کر دیا اب ؟"

وہ حیران ہو کر بولی آتش غصہ دباتا اس کے قریب آیا 

" تمہیں پتہ بھی ہے کہ تم کیا کیا بولتی رہتی ہو جب تمہیں معلوم تھا کہ میں غصے میں ہوں تب بھی تمہاری زبان ہمیشہ کی طرح چل رہی تھی"

 اس نے دانت پیسے

" تو میں کیا کروں تم سے ہر وقت ڈر کر رہوں ؟"

وہ بنا پیچھے ہٹے بولی تھی آتش نے ایک پل کے لیے اس کی طرف دیکھا وہ سوچ رہا تھا کہ مہر شاید ڈر کر چپ ہو جائے گی لیکن اس کی آنکھوں میں اتنی ہی ضدی چمک تھی جتنی اس کی اپنے چہرے پر

" تم مجھے مزید غصہ دلا رہی ہو"

 اب آتش نے تھوڑا جھک کر کہا 

" اگر ایسا ہوتا تو کب کا کر چکی ہوتی "

مہر نے ٹھنڈے لہجے میں کہا بس ایک لمحے کے لیے ان دونوں کے درمیان خاموشی چھائی تھی آتش نے گہری سانس لی پھر بنا کچھ کہے شرٹ اتار کر زور سے صوفے پر پھینکی مہر اسے دیکھتی رہی مگر پھر بنا ایک اور لفظ کہے اپنا دوپٹہ سنبھالتی ڈریسنگ روم کی طرف چلی گئی آج پہلی بار اسے محسوس ہوا کہ اس شخص کو سمجھانا واقعی آسان نہیں ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

Iss episode mein ek taraf chandni se bhari raat hai jahan Zaryab Mashal ko phoolon wali rahdari se le jaata hai, usay usi chand ke samne rokta hai aur kehta hai, "Ek chand wo hai... aur mera chand ye." Mashal uski baaton mein kho jaati hai, dono ke darmiyan ek sukoon bhara rishta nazar aata hai. Doosri taraf Atish ke dil mein jalan aur gussa hai. Jab wo ghar lautta hai to Meher ko bheegi hui, khamosh aur toot chuki si dekhta hai. Meher kuch kehna chahti hai, lekin Atish ki aankhon mein sirf ilzaam hota hai. Meher us raat akeli nikal jaati hai, aansuon ke saath, badlon ke neeche. Jab Atish apne haath pe khoon dekhta hai to ek jhatke mein sab samajh aata hai. Wo sab kuch chhod kar usay dhoondhne nikal padta hai. Ek mohabbat roshan hoti hai, doosri tut kar andheron mein kho jaati hai.

More Chapters