Episode. 6
"مہر میری بہن ہے آتش، اور اب وہ تمہاری بیوی ہے۔ میں سب جانتا ہوں جو کچھ تمہارے دل میں ہے۔ اس کا خیال رکھنا۔"
زریاب نے اس سے الگ ہو کر آنکھوں ہی آنکھوں میں خاص قسم کی وارننگ دی۔ آتش نے تپ کر اپنے سالے اور بہنوئی کو گھورا۔
"مشعل میری بہن ہے اور اب تمہاری بیوی۔ اگر اس کی آنکھ میں تمہاری وجہ سے ایک بھی آنسو آیا، تو یاد رکھنا… میں اپنی بہن کو بیوہ بنانے سے بھی نہیں ہچکچاؤں گا۔"
آتش کہاں پیچھے رہنے والا تھا، الٹا زریاب کو دھمکی دے کر حساب برابر کر دیا۔ پھر اس کے کندھے پر ہاتھ مارا اور امی کی طرف بڑھ گیا۔
زریاب نے دانت پیستے ہوئے آتش کی پیٹھ کو گھورا، پھر سر جھٹک کر اپنی جان حیات کے پاس جا بیٹھا۔ فی الحال وہ "اس" خوشی کو پورے دل سے محسوس کرنا چاہتا تھا۔
"یہ کیا حرکت ہے آتش؟"
تہمینہ بیگم نے ناراضگی سے اسے دیکھا جب وہ ان کے پاس آیا۔
"کون سی حرکت؟"
آتش نے ناسمجھی سے پوچھا۔ اسے لگا شاید اُس نے کچھ ایسا ویسا کیا ہو۔
"تم مہر کے پاس کیوں نہیں گئے؟ ذریاب کو دیکھا ہے؟ کیسے مشعل کے آگے پیچھے گھوم رہا ہے۔ اور ایک تم ہو، جس نے اپنی بیوی کو دیکھنا بھی گوارا نہ کیا!"
آتش نے تحمل سے ان کی بات سنی، پھر اردگرد نظریں دوڑائیں کہ کہیں کوئی سن تو نہیں رہا۔ مطمئن ہو کر اس نے تہمینہ بیگم کی طرف دیکھا۔
"آپ جانتی ہیں میں نے یہ شادی آپ اور مشعل کی خاطر کی ہے۔ پھر کیوں چاہتی ہیں کہ میں زبردستی مہر کے پاس جاؤں؟ میں اسے پسند نہیں کرتا… اور نہ ہی اس کی ناز برداری اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ذریاب اور مشعل کی شادی ان کی خوشی سے ہوئی ہے، جبکہ مہر کو میرے سر تھونپا گیا ہے۔ اس لیے مجھ سے یہ امید نہ رکھیں کہ میں اس کے آگے پیچھے پھروں گا۔"
اس کے لہجے میں واضح بیزاری تھی۔
"یاد رکھنا آتش، جو کچھ تم مہر کے ساتھ کر رہے ہو، اگر کل کو زریاب نے وہی کچھ مشعل کے ساتھ کیا تو؟ کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہاری بہن اپنے گھر میں خوش رہے؟"
تہمینہ بیگم کی آواز میں درد تھا۔
"دیکھیں اپنی بیٹی کو… جو اتنی فکر دے رہی ہے آپ کو۔"
آتش نے ذریاب اور مشعل کی طرف اشارہ کیا، جہاں ذریاب کچھ کہہ رہا تھا اور مشعل ہنستی جا رہی تھی۔
تہمینہ بیگم نے نظر مہر پر ڈالی، جو فاصلے پر بیٹھی، ویران نظروں سے انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔ اس نے نظریں جھکا لی تھیں۔ ایک ہوک سی ان کے سینے میں اٹھی۔
"آپ کو لگتا ہے کہ ذریاب اسے کانٹا بھی چبھنے دے گا؟ فکر نہ کریں، آپ کی بیٹی جہاں ہو گی، خوش ہی ہو گی۔ اور دوسروں کی بیٹیوں کی فکر کرنا آپ چھوڑ دیں۔"
تہمینہ بیگم نے بمشکل خود کو قابو میں رکھا۔
"مہر کوئی 'دوسری' نہیں ہے، میری بیٹی ہے! اگر اُسے تمہاری وجہ سے تکلیف ہوئی تو یاد رکھنا، میں تمہیں اس گھر سے نکال دوں گی۔ اور تم جانتے ہو، میں یہ کر سکتی ہوں!"
آتش نے بے یقینی سے دیکھا، "آپ مجھے میرے ہی گھر سے نکالیں گی؟"
"ہاں، کیونکہ یہ گھر مجھے میرے شوہر نے دیا تھا!"
وہ وارننگ دیتی ہوئیں طیبہ کی طرف بڑھ گئیں، جب کہ آتش ابھی تک بے یقینی سے انہیں جاتا دیکھ رہا تھا۔
پھر اس نے رضا چاچو کی طرف دیکھا، جو مہمانوں سے باتیں کرتے ہوئے بھی اُسے دیکھ رہے تھے۔ اگلا لمحہ... اور آتش تیز قدموں سے سیدھا مہر کے پاس پہنچا۔
مہر سر جھکائے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی، جب اچانک کسی کے سامنے آنے سے چونک کر سر اٹھایا۔ آتش کو سامنے دیکھ کر اُس کی سانسیں جیسے تھم گئیں۔
آتش نے جھک کر اُس کے گود میں رکھا ہاتھ تھاما اور اُسے آہستہ سے کھڑا کر دیا۔ اُس کے ہاتھ گرم تھے، جب کہ مہر کے ٹھنڈے یخ۔ ایک سنسناہٹ ان کے لمس سے مہر کے پورے وجود میں دوڑ گئی۔
نکاح کے بعد پہلی بار، وہ آتش کے سامنے یوں کھڑی ہوئی تھی۔ آتش نے آہستہ سے اس کا گھونگھٹ الٹ دیا۔ مہر نے نظریں جھکا لیں۔
وہ سفید کامدار جوڑے میں، ہلکے میک اپ اور گہری سرخ لپ اسٹک کے ساتھ، جیسے آتش کی آنکھوں میں بس گئی تھی۔
آتش نے نرمی سے اُس کے گال کو چھوا۔
"تم تو بہت ہی خوبصورت ہو… مہر آتش۔"
مہر نے چونک کر، حیرت سے اس کی بھوری آنکھوں میں دیکھا۔ آتش دلکشی سے مسکرایا۔ وہ مسکراہٹ؟
مہر کو لگا، جیسے دل سینہ توڑ کر باہر آ نکلے گا۔
آتش نے آہستگی سے اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا، اور پھر اسے سینے سے لگا لیا۔
"ابو… ابو دیکھ رہے ہیں۔"
مہر نے تھوک نگل کر سرگوشی کی۔
آتش نے رضا چاچو کی طرف دیکھا، جو انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔ آتش نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا، جیسے کہہ رہا ہو "کچھ غلط کیا ہے کیا؟"
رضا چاچو نے بھی مسکرا کر نفی میں سر ہلا دیا۔
پھر آتش نے مہر کو تھوڑا فاصلے پر کر کے دیکھا۔ اُس کی لپ اسٹک کا نشان اس کے سینے پر تھا۔
مہر نے کچھ کہنا چاہا، مگر آتش نے روک دیا،
"ایک لفظ بھی مت بولنا، مہر۔ اس وقت میرا موڈ بہت خراب ہے۔ اگر تم چاہتی ہو میں کچھ نہ کروں، تو خاموشی سے کھڑی رہو۔"
یہ کہہ کر وہ اسے سٹیج کے درمیان میں لے آیا۔
سب حیران، سب خاموش، اور پھر...
آتش نے ہاتھ میں پکڑی پانچ ہزار کے نوٹوں کی گڈی مہر کے سر سے واری، اور اُسے فضا میں اچھال دیا۔
☆☆☆
مجھ کو مجھ میں جگہ نہیں ملتی
تو ہے موجود اس قدر مجھ میں
گھڑی اتار کر اُس نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی، پھر کف لنکس نکال کر باکس میں سلیقے سے رکھ دیے۔ وارڈروب کی طرف قدم بڑھایا ہی تھا کہ آئینے میں اپنی ہی جھلک دیکھ کر یکدم ٹھٹھک گیا۔ نظر اس کی سفید شرٹ پر جا ٹھہری تھی، سینے کے عین اُس مقام پر — جہاں لپ اسٹک کا واضح نشان موجود تھا۔
تیزی سے شرٹ اتار کر آنکھوں کے سامنے کی، اور اب اُسے صحیح معنوں میں اُن نظروں کی شدت محسوس ہونے لگی، جو کچھ دیر قبل اُس پر پڑی تھیں۔
"اف... مہر، اف!"
جھنجلا کر اُس نے شرٹ دوبارہ دیکھی، پھر وارڈروب کی طرف لپکا۔ دو منٹ بعد کپڑے بدل کر بیڈ پر نیم دراز ہو چکا تھا۔ مگر اب اُس کے چہرے پر نہ کوئی جھنجھلاہٹ تھی، نہ کوئی بےچینی — بس ایک خاموش سا طوفان، جو اندر ہی اندر چل رہا تھا۔
جیسے ہی آنکھیں بند کیں، چھم سے مہر کا چہرہ دل کے پردے پر ابھر آیا۔ اُس نے فوراً آنکھیں کھول دیں۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ؟"
اُٹھ کر تکیے سے ٹیک لگا لی۔ بار بار وہ لمحہ یاد آ رہا تھا جب مہر اُس کے سینے سے لگی تھی، جیسے وہ اب تک اُسی لمحے میں قید ہو۔
"ہوش کے ناخن لے آتش... ہوش کے ناخن۔"
اُس نے کنپٹی کو دو انگلیوں سے مسلا، خود کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کی۔
"آخر ضرورت ہی کیا تھی مجھے یہ سب کرنے کی؟"
وہ جھنجلا کر پھر سے نیم دراز ہو گیا۔ کل رخصتی تھی، پرسوں ولیمہ، اور پھر قوالی نائٹ۔ لیکن آج کی رات میں صرف مہر تھی۔
مہر کو سوچتے، اُس کی سانسوں میں اُسے محسوس کرتے نہ جانے کب اُس کی آنکھ لگی، اُسے خود بھی خبر نہ ہوئی۔
☆☆☆
بارات آ چکی تھی۔
پورا ہال روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ ہال کے داخلی دروازے پر وہ تینوں لڑکیاں باراتیوں کا داخلہ روک چکی تھیں۔ ذریاب اور امان ایک ساتھ کھڑے خاموشی سے ان تینوں کو سن رہے تھے، جو بغیر رُکے بولے جا رہی تھیں۔ آتش وہاں موجود نہیں تھا — اس کی انٹری بعد میں تھی۔
"ہم نے آپ کی تقریر سن لی، اب پلیز ہمیں اندر جانے دیں۔"
جیسے ہی عینی خاموش ہوئی، امان نے کہا۔
عینی نے تپ کر اس کو گھورا۔
"میں نے کوئی تقریر نہیں کی، سمجھ گئے آپ؟"
پھر اس کی نظریں ذریاب پر جم گئیں۔
"نکالو پورے دس لاکھ، ورنہ ہم یہاں سے ہلنے والی نہیں!"
اس نے مہندی سے سجی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔
امان نے بمشکل اس کے ہاتھ سے نظریں پھیریں۔
"کیا کہا؟ دس لاکھ؟!"
ذریاب اچھل پڑا۔
"اچھا ٹھیک ہے، نو لاکھ دے دیں۔ اس سے کم ایک روپیہ بھی نہیں۔ صحیح کہا نا؟"
ساتھ ہی اس نے مومنہ اور ایمل سے تائید چاہی۔
انہوں نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔
"ہاں ہاں، بالکل!"
"کوئی ضرورت نہیں تجھے ہاتم طائی بننے کی۔ دس ہزار دے اور جان چھڑوا۔"
امان نے چٹکی لیتے ہوئے کہا۔
"تو پھر آپ لوگ بارات لے کر واپس جا سکتے ہیں۔"
عینی نے آنکھیں مٹکائیں۔
ذریاب کے دل پر گویا گھونسا پڑا۔
"ہاں ہاں جا رہے ہیں، میرے ذریاب کو لڑکیوں کی کمی تھوڑی ہے!"
"ابے سالے، چپ کر! میری شادی پہ سیاہی مت پھیرا!"
ذریاب نے دانت پیستے کہا۔
پھر عینی کی طرف پلٹا۔
"دس لاکھ چاہییں نا؟ تم تینوں ایک منٹ۔۔۔"
عینی، مومنہ اور ایمل کے چہرے دمکنے لگے۔
ذریاب نے امان کو اشارہ کیا۔
امان نے لمبی سانس لی اور جیب سے نوٹوں کی گڈی نکالی۔ پانچ ہزار کے نوٹ لہراتے ہوئے بولا:
"ایک... دو... تین... چار..."
عینی کے چہرے پر بیزاری پھیل گئی۔
"اب بتائیں، یہ کتنے ہوئے؟"
"ایک لاکھ۔"
عینی نے بےزاری سے کہا۔
امان نے ہنسی دبائی۔
"ہمم، اچھا ایک سیکنڈ۔۔۔"
پھر اس نے جیب سے دس روپے نکالے۔
"یہ کتنے ہیں؟"
"دس۔"
"گڈ۔ اور یہ؟"
"لاکھ۔"
"تو پھر یہ دس اور یہ لاکھ، کتنے ہوئے؟"
عینی نے تھوک نگلا۔
"دس لاکھ۔۔۔؟"
"بہت خوب! یہ لو، پورے دس لاکھ!"
اس نے نوٹ اس کی طرف بڑھائے۔
"ذریاب!!"
عینی نے تپ کر پکارا۔
"ابے پاگل! سستی حرکتیں بند کر، باقی پیسے نکال۔"
ذریاب نے ہار مان لی۔
"یار مذاق کر رہا تھا۔۔۔ دے رہا ہوں، دے رہا ہوں!"
اس نے باقی رقم نکالی، اور عینی نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ پیسے وصول کیے۔
"ارے آپ لوگ ابھی تک باہر ہی ہیں؟ اندر آئیے نا!"
عینی اور باقی دونوں نے فوراً راستہ چھوڑا۔
ذریاب اور امان ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے۔
"مجھے یقین نہیں آ رہا۔۔۔"
عینی نے نوٹوں کو گھورتے ہوئے کہا۔
"ان میں سے پانچ لاکھ آتش کی طرف سے ہیں۔"
نایاب پھپھو قریب آئیں۔
"امی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ تو۔۔۔"
"کیوں نہیں ہو سکتا؟ رضا بھائی، تہمینہ بھابھی، طیبہ بھابھی نے بتایا تھا۔ میں بس تم لوگوں کو بتانا بھول گئی۔ اب آتش آئے تو اُسے تنگ مت کرنا، سمجھی؟"
وہ کہہ کر چلی گئیں۔
پیچھے ایمل اور مومنہ فوراً لپکیں۔
"پانچ لاکھ دے دو، عینی آپی!"
دونوں یک زبان ہوئیں۔
"پانچ لاکھ؟ تم لوگ کرو گی کیا ان پیسوں کا؟ اگر کسی چیز کی۔۔۔۔۔"
"چیز کی نہیں، پیسوں کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی پورے پانچ لاکھ میرے بنتے ہیں، لیکن میں اتنی بری نہیں ہوں — مومنہ سے شیئرنگ کر لوں گی!"
ایمل تڑپ کر بولی۔
عینی نے دانت پیسے۔
"یہ لو!"
دونوں خوشی سے اچھلتی ہوئیں پیسے لے کر نکل گئیں۔
عینی جیسے ہی پلٹی، علی دیوار کی طرح اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
"میرا حصہ؟"
"لڑکوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، سمجھے؟"
وہ غصے سے بولی لیکن دل ہی دل میں روہانسی ہو گئی۔
"مجھے نہیں پتہ کہ حصہ ہوتا ہے یا نہیں، لیکن یہ پیسے میری اکلوتی بہن کی وجہ سے تمہیں ملے ہیں، تو اب بتاؤ..."
وہ رُکا، اور پھر معنی خیز لہجے میں بولا:
"چھین لوں؟ یا شرافت سے دو گی؟"
عینی نے جھنجلا کر چند نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیے۔
"کم ہیں، لیکن چلے گا۔"
پیسے جیب میں ڈال کر وہ بھی غائب ہو گیا۔
جیسے ہی وہ پلٹی، سامنے امان کھڑا تھا۔
"آہہہہ!"
اس کی چیخ نکلی۔
"آہستہ یار! کان پھاڑ دیے!"
امان نے کان میں انگلی دی۔
"میرے پاس اب کچھ نہیں ہے!"
کہہ کر وہ مخالف سمت میں بھاگ گئی، اور امان پیچھے ارے ارے کرتا رہ گیا۔
☆☆☆
جب محبت محرم بن کر سامنے آئے تو وہ خوشی وہی حد بن جاتی ہے جس کے آگے دنیا کی ساری خوشیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ وہ ہال کے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئی، اردگرد لڑکیاں تھیں، لیکن کسی نے اسے تھاما نہیں تھا — وہ اکیلی، خود اعتمادی سے قدم اٹھاتی، ہلکا سا مسکراتی، ذریاب کی طرف بڑھ رہی تھی۔
ذریاب بے اختیار کھڑا ہوا، اسے لگا جیسے دھڑکنیں بے قابو ہو گئی ہوں۔ وہ اس کے بالکل سامنے، اسٹیج کے پاس آ کر رک گئی۔ نظریں اٹھیں، نگاہیں ملی، اور لمحہ رک سا گیا۔ مشعل نے نظریں جھکائیں، لیکن اس کے چہرے پر ذریاب کی نظروں کا لمس محسوس ہوتا رہا۔
ذریاب نے ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی، مشعل نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے تھاما، اور اسٹیج پر چڑھ گئی۔
"کہاں چھپا رکھی تھی اتنی خوبصورتی؟ کیا مجھے مارنے کا پورا ارادہ کر کے آئی ہو؟"
وہ اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوئے جھک کر بولا، وہ بری طرح شرما گئی۔
"ابھی تو میں نے صرف بات کی ہے، اور تم اتنا شرما رہی ہو۔ آگے کیا ہوگا؟"
ذریاب نے شوخی سے چھیڑا، تو وہ مزید گلنار ہو گئی۔
"ذریاب، بس کرو اب!"
وہ جھنجلا کر بولی۔
"کیا؟ ابھی تو میں نے کچھ کیا ہی نہیں!"
لفظوں میں چھپی شوخی نے اس کے گال دہکا دیے، اور ذریاب کا انداز مزید محظوظ کن ہو گیا۔
اس نے نرمی سے اس کا کپکپاتا ہاتھ تھاما، جیسے کہہ رہا ہو:
"گھبراؤ نہیں... میں تمہارا شوہر ہوں۔ کوئی فلموں کا ولن نہیں۔"
پھر وہ مدھم سا مسکرایا، اور اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ اب وہ بھی ریلیکس ہو چکی تھی۔
☆☆☆
"یہ آتش کہاں رہ گیا؟"
تہمینہ بیگم نے پاس سے گزرتے امان کو روکا۔
"ابھی میری بات ہوئی ہے، آنے والا ہے... ارے، وہ دیکھیں، آ گیا!"
امان نے سامنے اشارہ کیا، جہاں آتش اپنی پوری وجاہت اور سپاٹ چہرے کے ساتھ داخل ہو رہا تھا۔ چہرے پر کوئی تاثر نہیں، کوئی مسکراہٹ نہیں۔
"کہاں رہ گئے تھے آتش؟ دیکھو، سب تمہیں پوچھ رہے ہیں!"
تہمینہ بیگم کی فکرمندی اب سکون میں بدل چکی تھی۔
"یہی تھا، امی، اور کہاں ہونا ہے؟"
وہ لاپرواہی سے بولا اور آگے بڑھ گیا۔
کچھ دیر بعد، آتش نے دیکھا، وہ آ رہی تھی — ٹھوڑی تک گھونگھٹ ڈالے، عینی کے ساتھ۔ مشعل کے برعکس، اس نے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا۔ آتش نے تلخی سے چہرہ موڑ لیا۔
نہ کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا، نہ ہاتھ بڑھایا۔ عینی نے حیرت سے اسے دیکھا، پھر کچھ محسوس کر کے خود ہی مہر کو آتش کے پہلو میں بٹھا دیا۔ آتش بے اختیار تھوڑا دور سرک گیا — اور یہ فاصلہ، مہر نے پورے دل سے محسوس کیا۔
دل کی دھڑکن جیسے تھم سی گئی۔ بمشکل خود پر قابو پاتے، اس نے سرد سانس لی۔
"زیادہ خوش فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں، میں نے پہلے بھی کہا تھا، اور اب دوبارہ یاد دلاؤں گا... زندگی جہنم بنا دوں گا تمہاری۔ مجھ سے کوئی امید مت رکھنا۔ اور اگر رکھ لی... تو انجام صرف تکلیف ہوگا۔ اب لفظوں سے نہیں، عمل سے سمجھاؤں گا!"
آتش کا آتشی لہجہ دل کو جلا گیا۔ اس کی آنکھ سے ایک بے اختیار آنسو نکلا، اور گال پر بہہ گیا۔
"بھاڑ میں جاؤ، مہر!"
وہ جھنجلا کر چہرہ موڑ گیا — اسے اندازہ ہی نہ تھا کہ وہ مہر کے دل میں زہر بھر کر کتنا بڑا خسارہ کر بیٹھا ہے۔
کھانے کے بعد رخصتی کا مرحلہ آیا۔ دونوں دلہنیں بنا کسی کو رلائے، چپ چاپ اپنے نئے گھروں کو روانہ ہو گئیں۔
جاری ہے
Atish wasn't supposed to return early, but fate had other plans. The moment his eyes caught Meher, everything shifted. The faint trace of lipstick on her lips said more than any words could. His stare was intense, questioning, almost burning. And Meher… she stood there, silent, yet her silence was loud enough to shake something inside him.
She didn't justify. She didn't defend. But her presence—soft, scared, yet quietly strong—told a thousand stories. Atish moved closer, not just in distance, but emotionally, in a way he never allowed himself to.
That night wasn't about words. It was about the tension, the unspoken emotions, and the storm within both of them. A battle between ego and concern, pride and pain. Nothing was confessed, but everything was felt.